نظربد يا نظرلگنا (عربي: العين)
نظربد کی حقیقت کو جاننے اور سمجھنے کے لئے اشد ضروری ہےکہ پہلے ، قرآن اور سنت سے مندرجہ ذیل حوالاجات کامطالعہ کیا جائے :۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
اور ضرور کافر تو ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا اپنی بد نظر لگا کر آپ کو گرا دیں گے جب قرآن سنتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ضرور عقل سے دور ہیں
(سورہ القلم 68: آیت 51)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ "وہ آپ کو نظر لگا دیں گے"۔
اور (یعقوب علیہ السلام نے) کہا اے میرے بیٹو! ایک دروازے سے نہ داخل ہونا اور جدا جدا دروا زوں سے جانا میں تمہیں اللہ (کے حکم اورمشیئت) سے بچا نہیں سکتا حکم تو سب اللہ ہی کا ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ چاہیے،
(سورہ یوسف 12:آیت 67)
اس آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہُ اللہ نے لکھا,
"ابن عباس ، اور محمد بن کعب، اور مجاھد ، اور ضحاک اور قتادہ اور سُدی اور کچھ اور(رضی اللہ عنہم و رحمہم اللہ جمعیاً) نے کہا کہ ، یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کو نظر لگنے سے خوف زدہ ہوئے تھے ، کیونکہ وہ (بیٹے)خوبصورت ، خوش نظر حلیےوالے ، اور خوش منظرتھے، لہذا یعقوب علیہ السلام اس بات سے ڈرے کہ کہیں لوگ اُن کےبیٹوں کو نظر بد کے ذریعے نقصان نہ پہنچائیں ، کیونکہ نظر لگنا حق ہے ، جو کہ کسی ماہر گُھڑ سوار کو اُس کے گھوڑے سے گِرا دیتی ہے ".
سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
العين حق '' - نظر بد (کا لگنا) برحق ہے ۔'
(بخاری ، مسلم ، مسند احمد ، ابن ماجہ)
سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"العين حق" - نظر بد (کا لگنا) برحق ہے ۔
(مسلم)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
الْعَيْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَيْئٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْهُ الْعَيْنُ وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا
نظر بد (لگنا) برحق ہے، اور اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے بڑھ سکتی ہوتی تو وہ نظر بد ہی ہوتی،اور جب تم سے (نظر کےعلاج کے لیے) غسل کرنے کے لیے کہا جائے تو غسل کر لیا کرو۔'
(مسلم ، ترمذی ، ابن حبان)
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : قَالَتْ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ أَمَرَ أَنْ يُسْتَرْقَی مِنْ الْعَيْنِ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا یا حکم دیا کہ نظر بد لگ جانے پر دم کیا کرو۔
(بخاری و مسلم)
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى فِي بَيْتِهَا جَارِيَةً فِي وَجْهِهَا سَفْعَةٌ ، فَقَالَ : اسْتَرْقُوا لَهَا ، فَإِنَّ بِهَا النَّظْرَةَ
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے گھر میں ایک لڑکی دیکھی جس کے چہرے پر کالے دھبے پڑے ہوے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر دم کرو کیونکہ اسے نظر بد لگی ہوئی ہے ۔
(بخاری و مسلم)
عن انس بن مالك ، قال: رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم في الرقية من العين والحمة والنملة
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ، رخصت دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم کی نظر بد اور ڈنگ (زہر) اور نملہ کے لیے(نملہ ایک بیماری ہے جس میں پسلی میں زخم پڑ جاتے ہیں) ۔
(مسلم)
عَنْ جابر بن عبد الله ، يقول: " رخص النبي صلى الله عليه وسلم لآل حزم في رقية الحية، وقال لاسماء بنت عميس: " ما لي ارى اجسام بني اخي ضارعة تصيبهم الحاجة؟، قالت: لا، ولكن العين تسرع إليهم، قال: " ارقيهم "، قالت: فعرضت عليه، فقال: " ارقيهم
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی، حزم کے لوگوں کو سانپ کے لیے منتر کرنے کی۔ اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”کیا سبب ہے میں اپنے بھائی کے بچوں کو (یعنی جعفر بن ابوطالب کے لڑکوں کو) دبلا پاتا ہوں کیا وہ بھوکے رہتے ہیں۔“ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: نہیں ان کو نظر جلدی لگ جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی دم کرو“ میں نے ایک دم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دم کردو۔“
(مسلم)
ایک دفعہ صحابی رسول حضرت سھل بن حنیف رضی اللہ عنہ ُ نہا رہے تھے ۔ اُن کے پاس سے ایک دوسرے صحابی حضرت عامر بن ربیعۃ رضی اللہ عنہ ُ کا گذر ہوا، تو انہوں نے سھل رضی اللہ عنہ ُ کو دیکھ کر بے ساختہ کہا " میں نے ایسی خوبصورت جِلد آج سے پہلے نہیں دیکھی ۔ یہ تو اپنی چادر میں چھپی ہوئی کسی لڑکی کی جلد سے بھی اچھی ہے "، اُسی وقت سھل رضی اللہ عنہ ُ بے ہوش ہو کر زمین پر گِر گئے ۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں لے جایا گیا اور بتایا گیا کہ سھل ہوش نہیں کر رہے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دریافت فرمایا
مَنْ تَتَّهِمُونَ بِهِ : کیا تُم لوگ کسی کو (نظر لگانے کا) مورد الزام ٹھہراتے ہو؟
صحابہ نے عرض کیا " جی ہاں ، عامر بن ربیعۃ کو" ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے عامر بن ربیعۃ رضی اللہ عنہ ُ کو طلب فرمایا اور اِرشاد فرمایا
عَلاَمَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مِنْ أَخِيهِ مَا يُعْجِبُهُ فَلْيَدْعُ لَهُ بِالْبَرَكَةِ : کیوں تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرنے کے درپے ہوتا ہے؟ تم میں سے کوئی جب اپنے بھائی کی کوئی خوش کن بات دیکھے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُنہیں حُکم دِیا کہ اس کے لیے وضو کرو، غسل کرو ۔ عامر رضی اللہ عنہ ُ نے وضوء کیا ، اور اپنے دونوں گھٹنوں اور اپنی کمر سے نیچے کے حصے کو دھویا ، اور اپنے دونوں ٹانگوں کو پہلوؤں سے دھویا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ وہ پانی سھل رضی اللہ عنہ پر ڈال دِیا جائے ۔ وضوء اور دُھلائی میں استعمال شد ہ پانی سھل رضی اللہ عنہ ُ کے سر کی پچھلی طرف سے اُن پر ڈالا گیا، تو سھل رضی اللہ عنہ ُ لوگوں کے ساتھ اس طرح واپس گئے جیسے انہیں کچھ ہوا ہی نہیں تھا ۔ (ابن ماجہ ، ابن حبان، موطأ امام مالك، مُسند احمد کی روایات سے ماخوذ) ۔
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10