top of page

                  نماز حاجت (عربي: صلاة قضاء الحاجة)   

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه

أما بعـد


نمازحاجت اللہ تبارک وتعالیٰ سے اپنی دنیاوی اوراخروی ضرورتوں اورحاجتوں کو مانگنے کا مسنون طریقہ ہے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کونمازحاجت  تعلیم فرمائی . لہذا ، جب  کوئی ایسا مسئلہ ، ضرورت یا حاجت آن پڑے جس کا بظاہرکوئی حل نظر نہ آئے تو ہمیں  چاہئے کہ اس مسنون نماز کا اہتمام کریں اوراللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔
اللہ کریم مسبب الاسباب ہے، وہ اپنی شان کریمی سے بہترین اسباب پیدا فرما ئے گا۔

namaz hajat (1).jpg
namaz hajat (2).jpg

مزید معلومات اور حوالہ جات


فقہاء کی رائے 

مندرجہ ذیل احادیث اور انکے علاوہ  دیگر متعدد احادیث  کسی حاجت وضرورت کے لئے نمازِ حاجت کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہیں -  یہی وجہ ہے کہ ، چاروں مکاتب فکر کے فقہاء نے اس نماز کو مستحب قراردیا ہے - 

 

رکعتوں کی تعداد

 رکعات کی تعداد میں فقہاء کا اختلاف ہے ، احناف کے نزدیک چار رکعتیں ، جبکہ مالکی ، حنبلی اور شافعی فقہاء کے نزدیک نمازِ حاجت دو رکعتیں ہے۔
تیسری رائےامام الغزالی کی ہے جن کے نزدیک نماز حاجت بارہ رکعت ہے۔

 

نمازحاجت کے متعلق احادیث 


عن عبد الله بن أبي أوفى، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كانت له إلى الله حاجة، أو إلى أحد من بني آدم فليتوضأ وليحسن الوضوء، ثم ليصل ركعتين، ثم ليثن على الله، وليصل على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم ليقل: لا إله إلا الله الحليم الكريم، سبحان الله رب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين، أسألك موجبات رحمتك، وعزائم مغفرتك، والغنيمة من كل بر، والسلامة من كل إثم، لا تدع لي ذنبا إلا غفرته، ولا هما إلا فرجته، ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين.
 

( الترمذی . ج: 1، ص: 603، ط: دار الغرب الاسلامی)۔
(سنن الترمذی رقم: ۴۷۹)
ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء فی صلاةِ الحاجة، 2 : 171، 172، رقم : 1384

اردو ترجمہ
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ سے  یا  بندوں میں سے کسی سے کوئی حاجت در پیش آئے تو اس کو چاہیے کہ وضو کرے خوب اچھی طرح، پھر دو رکعت (اپنی حاجت کی نیت سے) نمازِ حاجت پڑھے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے اور رسول اللہﷺ پرصلاۃ وسلام بھیجے (یعنی درود شریف پڑھے) اس کے بعد یوں دعا کرے ’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں جو حلیم و کریم ہے، اللہ پاک ہے جو  عرش عظیم کا رب ہے، تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، (اے اللہ!) میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، تیری رحمت کو واحب کرنے والی چیزوں کا، اور تیری مغفرت کو ضروری کرنے والی چیزوں کا، اور  (سوال کرتا ہوں) ہر بھلائی میں اپنے حصے کا،  ہر خطا سے  سلامتی  کا- اے سب سے زیادہ مہربان میرا  کوئی گناہ نہ چھوڑ جو تو بخش نہ دے ، اور میرا  کوئی غم  نہ چھوڑ جو تو دور نہ کر دے ، اور میری کوئی حاجت نہ چھوڑ جو تیری رضا کے مطابق ہو اور تو پوری نہ فرما  دے ۔‘‘

...................

أخرج الإمام أحمد وغيره بسند صحيح عن عثمان بن حنيف أن رجلاً ضرير البصر أتى النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال : ادع الله أن يعافيني . فقال صلى الله عليه وسلم : (إن شئت دعوت لك ، وإن شئت أخّرتُ ذاك ، فهو خير لك. [وفي رواية : (وإن شئتَ صبرتَ فهو خير لك)] ، فقال : ادعهُ. فأمره أن يتوضأ ، فيحسن وضوءه ، فيصلي ركعتين ، ويدعو بهذا الدعاء : اللهم إني أسألك ، وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة ، يا محمد إني توجهتُ بك إلى ربي في حاجتي هذه ، فتقضى لي ، اللهم فشفّعه فيَّ ) . قال : ففعل الرجل فبرأ .

ترمذی، ابن ماجہ، احمد بن حنبل، حاکم، ابن خزیمہ، بیہقی اور طبرانی

الراوي : عثمان بن حنيف رضی اللہ عنہ | المحدث : الوادعي | المصدر : الشفاعة
الصفحة أو الرقم: 187 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
التخريج : أخرجه ابن خزيمة (2/225)، والطبراني (9/17)، والحاكم في ((المستدرك)) (1/707) باختلاف يسير.


اردو ترجمہ
امام احمد اور دیگر ائمہ نے صحیح سند کے ساتھ عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک نابینا شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: "اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے عافیت سے نوازے" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کر دیتا ہوں، اور اگر چاہو تو دعا مؤخر کر دیتا ہوں اور یہی تمہارے لیے بہتر ہے)[ایک روایت کے الفاظ ہیں: (اور اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے)]، اس پر نابینا شخص نے کہا: "آپ اللہ سے دعا کریں" تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ : اچھی طرح سے وضو کرے اور پھر دو رکعت نماز پڑھے، اور پھر یہ دعا مانگے: (اللهم إني أسألك ، وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة ، يا محمد إني توجهتُ بك إلى ربي في حاجتي هذه ، فتقضى لي ، اللهم فشفّعه فيَّ ) اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے، جو کہ رحمت کےنبی ھیں. یامحمد صلی اللہ علیک وسلم میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں کہ وہ پوری ہو۔  یا اللہ میرے حق میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔‘‘ راوی کہتے ہیں: اس شخص  نے ایسا ہی کیا تو وہ بینا ہو گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں اپنی حاجت برآری کے لیے اسی طریقے سے دو رکعت نماز کے بعد دعا کرتے تھے

 امام احمدؒ نے  ایک مرفوع حدیث حضرت ابو درداء ؓ سے نقل کی ہے کہ :’’جس نے اچھی طرح مکمل وضو کیا ، پھر دورکعتیں پڑھیں ، اور ان رکعتوں کو پورا کرنے کے بعد وہ اللہ تعالیٰ سے جو مانگے گا تو اللہ تعالیٰ وہ چیز یا جلدی دے دے گا یا پھر تھوڑی تاخیر سے ‘‘۔

ایک حدیث امام احمدؒ اور امام ابن ماجہ ؒ نے عثمان بن حنیف سے نقل کی ہے جس میں ایک مصیبت زدہ آدمی کا قصہ ہے۔ اور اس حدیث میں یہی ہے کہ فرشتے نے اس آدمی سے کہا کہ وہ اچھی طرح وضو کرے اور پھر دورکعت نماز پڑھ کر دعا مانگے ۔

اور ابو بکر بن ابی خیثمہ نے اپنی تاریخ میں اس زیادتی کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ :’’اگر اسے کوئی حاجت درپیش ہو تو وہ اسی طرح کرے‘‘۔


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر پریشانی کے وقت نماز کی طرف متوجہ ہوتے تھے جیسا کہ حدیث میں ہے: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم   فوراً نماز کا اہتمام فرماتے۔ (ابو داؤد ومسند احمد)


 

اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے : اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو۔

(سورۃ البقرہ ۱۵۳)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم رکھو۔   

(سورۃ المائدۃ ۱۲)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پانچ فرض نمازوں کے علاوہ نماز تہجد، نماز اشراق، نماز چاشت، تحیۃ الوضوء اور تحیۃ المسجد کا بھی اہتمام فرماتے۔ اور پھر خاص خاص مواقع پر اپنے رب کے حضور توبہ واستغفار کے لئے نماز ہی کو ذریعہ بناتے۔ سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو مسجد تشریف لے جاتے۔ زلزلہ، آندھی یا طوفان حتی کہ تیز ہوا بھی چلتی تو مسجد تشریف لے جاکر نماز میں مشغول ہوجاتے۔ فاقہ کی نوبت آتی یا کوئی دوسری پریشانی یا تکلیف پہنچتی تو مسجد تشریف لے جاتے۔ سفر سے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر نماز ادا کرتے۔ اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ پانچ فرض نمازوں کے علاوہ   نفل نمازوں  کا بھی خاص اہتمام کریں۔ بے شک، اللہ کی رحمت اور برکت  ہی ہماری زندگیوں کے امن ، اطمینان اورسکون میں اضافہ کرے گی ۔
 

1
2
3
4
5
6
bottom of page